Type Here to Get Search Results !

کلام اعلی حضرت مع تضمین وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں


کلام اعلی حضرت مع تضمین
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مالکِ ہر خیار پھرتے ہیں 
حشر کے تاجدار پھرتے ہیں 
مظہرِ کِردِگار پھرتے ہیں 
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں 
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں 

عقل کے اندھے یار پھرتے ہیں 
ان پہ شیطاں کے وار پھرتے ہیں  
ہر جگہ کھاتے مار پھرتے ہیں 
جو ترے در سے یار پھرتے ہیں 
در بہ در یوں ہی خوار پھرتے ہیں

خود کو دھوکے بڑے دیے ہم نے 
کچھ عمل نیک نہ کیے ہم نے 
کتنے زیادہ مزے لیے ہم نے 
آہ کل عیش تو کیے ہم نے 
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں

جن و انسان، چاند تاروں پر
کل زمیں اور آسمانوں پر 
حکم ان کا ہے سب جہانوں پر 
ان کے اِیما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پِھرتے ہیں

ساری دنیا سے شان ہے اونچی
ان پہ شیدا ہے خلقتِ نوری 
ان سے الفت ملک کو ہے کیسی
ہر چراغِ مزار پر قُدسی
کیسے پروانہ وار پِھرتے ہیں

رحمتیں ہم پہ اس طرح برسیں 
جب دیارِ رسول میں پہنچیں 
سبز گنبد کو دیکھ کر کہہ دیں 
اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں 
مانگتے تاجدار پِھرتے ہیں

کافروں سے نکل نڈر آئے 
دھول آنکھوں میں انکی بھر آئے
بِن دِکھے ہی انہیں گزر آئے 
جان ہیں جان کیا نظر آئے
کیوں عَدو گِردِ غار پِھرتے ہیں

خوشبو جس کی بسی ہے سانسوں میں 
یاد آتی ہے دن میں راتوں میں 
شہرِ طیبہ ہے میری یادوں میں 
پُھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں 
دشتِ طیبہ کے خار پِھرتے ہیں

نورِ حق صاحبِ شفاعت پر 
مصطفی خاتمِ رسالت پر 
صدقے جاؤں نبی کی عظمت پر 
لاکھوں قُدسی ہیں کامِ خدمت پر 
لاکھوں گِردِ مزار پِھرتے ہیں

ان کے محتاج ہیں بشر سارے 
ہیں گواہ ان کے فضل پر تارے
قدسی در کے غلام ہیں ٹھہرے 
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پِھرتے ہیں

خیرِ امت میں بھی مراد ہیں ہم
ہیں تمہارے تو کتنے شاد ہیں ہم 
کرتے تم پر فدا فؤاد ہیں ہم 
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مَوْل کے عیب دار پِھرتے ہیں

کر لے جو بھی عمل ہے کرنا یہاں
ورنہ پچھتائے گا بہت ہی وہاں 
اور کہے گا کہ اب میں جاؤں کہاں 
ہائے غافِل وہ کیا جگہ ہے جہاں 
پانچ جاتے ہیں چار پِھرتے ہیں

بد عقیدوں سے ترکِ الفت کُن 
گمرہوں سے لگا نہ ہرگز دُھن 
نار کا جال خود سے ہی مت بُن 
بائیں رستے نہ جا مسافِر سُن
مال ہے راہ مار پِھرتے ہیں

سامنے تیرے گہری ہے کھائی 
گر نہ جانا تو اس میں اے بھائی 
دیکھ ظلمت ہے ہر طرف چھائی 
جاگ سنسان بن ہے رات آئی
گُرگ بہرِ شِکار پِھرتے ہیں

ساکھ تجھ پر محال ہے ظالم
تجھ کو کوئی ملال ہے ظالم
کیسا تیرا وبال ہے ظالم
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم
جیسے خاصے بِجار پِھرتے ہیں

ان کا سگ ہونا بھی ہے شرف بڑا
یہ سلیقہ ہمیں رضا سے ملا
 جب ہی ارقم امام نے یہ کہا 
کوئی کیوں پُوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتّے ہزار پِھرتے ہیں
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ازقلم:- محمد ارقم رضا ازہری
متعلم جامعہ ازہر شریف، قاہرہ مصر

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.